Tuesday, July 11, 2023

calculator

Keyword Generator

Keyword Generator

Sunday, July 27, 2014

سرشور دریا کے دیو کو پھلانگ کر پار کرتے ہوئے ،میرے ذہن سے راستے میں دکھائی دینے والی پری بالکل ہوا ہوگئی تھی۔ گلاب کے پہاڑ نے میری روح کو بے حد متاثر کیا تھا اور میں ترنگ میں آکردرانی اور دو سپاہیوں سے خاصا آگے نکل گیاتھا۔ پیپر ٹریز کا جنگل شروع ہوگیا تھا۔ پیپر ٹریWillow کی کوئی صنف ہے۔ اِس پیڑ کی اونچائی دس بارہ فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی اور اِس کے تنے کا قطر6سے 9انچ تک ہوتا ہے جس سے اترنے والی چھال بالکل کاغذ کی مانند ہوتی ہے اوراس پر بھورے رنگ کے خوبصورت لہریے ہوتے ہیں جبکہ چھال کارنگ زردی مائل خاکی ہوتاہے۔
اسے کاغذ کی شکل میں کاٹا اور پھاڑا جاسکتا ہے اور کاغذ ہی کی طرح تہہ کرکے لفافے میں ڈالا جاسکتا ہے۔ میں نے ایسے کاغذوں پر دوستوں اور والدہ کو خط بھی لکھے تھے۔ میں گنگناتا ہوا او ر ہاتھ میں جنگلی گلابوں کی وہ سٹک گھماتا ہوا، جودردانہ نے اس پرلگے کانٹیچھیل کر مجھے دی تھی اورکانٹے اترجانے کے بعد سٹک دیدہ زیب ہوچکا تھا، انہیں پیڑوں کے سر سراتے جھنڈ سے گذررہا تھا کہے ٹھٹھک کر رک جانے پرمجبورہوگیا تھا۔ بیچ جنگل، تن تنہا ایک پری کھڑی تھی، جیتی جاگتی بناپروں کے۔ سر پر چھوٹی سی اوڑھنی تھی ، سر خ گال دمک رہے تھے ۔ کانوں کے آگے زلفوں کی بھوری مائل سنہری لیٹں جھول رہی تھیں۔ آنکھیں دن کی طرح روشن تھیں اور اس نے ایک چوغہ پہنا ہوا تھا جس میں سے اس کا جوان بدن پھٹاپڑرہا تھا۔
اس کے نازک پاؤں ننگے تھے۔ لگتا تھاکہ جیسے وہ بھی مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گئی تھی۔ لمحے دو لمحے کو ہماری نگاہیں ٹکرائی تھیں، پھروہ گھوم کر ہرنی کی طرح قلیلیں بھرتی گھنے جنگل میں گھس کر گم ہوگئی تھی۔ میں بھونچکاکرکھڑے کا کھڑا رہ گیا تھا۔ لڑکیوں کی کلکاریاں کہیں سے بھیسنائی نہیں دے رہی تھیں۔ اتنے میں درانی پہنچ گیا تھا۔ میں نے اسے پری سے آمنا سامنا ہونے کے بارے میں بتایا تو اُس نے کہا تھا، ’’یار ڈاکٹر کوئی مقامی لڑکی ہوگی۔ باقی لڑکیوں سے دور ہو رفع حاجت کی غرض سے ادھر آئی ہوگی۔ تم نے اُسے ڈرا دیا ‘‘۔ مگر میں یہ ضرورسوچتا رہا کہ اسے اِس مقصد کی خاطر پیدل چلنے والوں کی پگڈنڈی کے پاس بھلا کیوں آنا تھا ؟
اگر چہ میرے ذہن میں وہ بات بھی تھی کہ شیخ نے اپنی معتقدین کو ہم پنجابی فوجیوں سے بچنے کی تنبیہہ کی ہے۔ وہ پری تھی یا لڑکی لیکن تھی لاجواب ۔ میں نے زندگی میں دیس دیس کی بے حد حسین اور انتہائی نوجوان لڑکیاں دیکھی ہیں لیکن اس قدر معصوم و متحیرحسن پھر کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ۔ میں موت کے جھولے تک اسی کے بارے میں سوچتا رہاتھا لیکن خوف نے اُس کی یاد کے تحیر اور تجسس کو ماند کردیا تھا۔ اب ہم دریا کے اُس کنارے پر کوئی چالیس منٹ چلنے کے بعد شکمہ پوسٹ پہنچے تھے۔
ہیلی کاپڑ سے اتر کر تو میں نے اِس مقام کو چھچھلتی نگاہوں سے ہی دیکھا تھا۔ اب یوں لگا تھا جیسے دو مہیب پہاڑوں کے درمیان یہ ہرا بھرا نخلستان یا خوبصورت جزیرہ تھا جس میں پتھر کے بنے چند کمروں پر دن کے دو بجے شام کا اندھیرا چھارہاتھا۔ دھان پان نوجوان لیفٹینٹ خالد ہمیں دیکھ کر خوش ہوا تھا۔وہ بیچارہ وہاں پر واحد افسر تھا جس کا اور کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ رات ہم اس کے مہمان تھے ۔ گپ شپ لگا کر دس گیا رہ بجے ہی سوگئے تھے۔ رات کو ہی پروگرام بنالیا تھا کہ صبح آٹھ بجے پکٹ’’چور‘‘ کے لیے چڑھنا شروع کردیں گے۔
لیفٹینٹ خالد نے بھی ہمارے ساتھ جانے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ صبح ایک حوالدارکو اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ پہلے ہم دو ہزار فٹ تک اوپر چڑھتے رہے تھے اور سطح سمندر سے دس ہزارفٹ کی بلندی پر آکررُکے تھے۔ وہاں سے ہمیں مسلسل ساڑھے پانچ ہزار فٹ اوپر جانا تھا۔ خالد پہلے ہی کمزور تھا۔ ایک چڑھائی بہت دشوار تھی کیونکہ اس میں تقریباَ سیدھا ہی اوپر چڑھناتھا۔ ابھی منزل مقصو د کوئی ایک ہزار فٹ مزید بلندی پر تھی کہ خالد کو قے آگئی تھی۔ لگتا تھا اُس پر آکسیجن کی کمی کا اثر ہونے لگ گیاتھا۔ ہم نے بہتیرا سمجھایا کہ تم اپنے حوالدار کے ہمراہ واپس چلے جاؤ لیکن وہ راضی نہیں ہوا تھا۔

سرشور دریا کے دیو کو پھلانگ کر پار کرتے ہوئے ،میرے ذہن سے راستے میں دکھائی دینے والی پری بالکل ہوا ہوگئی تھی۔ گلاب کے پہاڑ نے میری روح کو بے حد متاثر کیا تھا اور میں ترنگ میں آکردرانی اور دو سپاہیوں سے خاصا آگے نکل گیاتھا۔ پیپر ٹریز کا جنگل شروع ہوگیا تھا۔ پیپر ٹریWillow کی کوئی صنف ہے۔ اِس پیڑ کی اونچائی دس بارہ فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی اور اِس کے تنے کا قطر6سے 9انچ تک ہوتا ہے جس سے اترنے والی چھال بالکل کاغذ کی مانند ہوتی ہے اوراس پر بھورے رنگ کے خوبصورت لہریے ہوتے ہیں جبکہ چھال کارنگ زردی مائل خاکی ہوتاہے۔
اسے کاغذ کی شکل میں کاٹا اور پھاڑا جاسکتا ہے اور کاغذ ہی کی طرح تہہ کرکے لفافے میں ڈالا جاسکتا ہے۔ میں نے ایسے کاغذوں پر دوستوں اور والدہ کو خط بھی لکھے تھے۔ میں گنگناتا ہوا او ر ہاتھ میں جنگلی گلابوں کی وہ سٹک گھماتا ہوا، جودردانہ نے اس پرلگے کانٹیچھیل کر مجھے دی تھی اورکانٹے اترجانے کے بعد سٹک دیدہ زیب ہوچکا تھا، انہیں پیڑوں کے سر سراتے جھنڈ سے گذررہا تھا کہے ٹھٹھک کر رک جانے پرمجبورہوگیا تھا۔ بیچ جنگل، تن تنہا ایک پری کھڑی تھی، جیتی جاگتی بناپروں کے۔ سر پر چھوٹی سی اوڑھنی تھی ، سر خ گال دمک رہے تھے ۔ کانوں کے آگے زلفوں کی بھوری مائل سنہری لیٹں جھول رہی تھیں۔ آنکھیں دن کی طرح روشن تھیں اور اس نے ایک چوغہ پہنا ہوا تھا جس میں سے اس کا جوان بدن پھٹاپڑرہا تھا۔
اس کے نازک پاؤں ننگے تھے۔ لگتا تھاکہ جیسے وہ بھی مجھے دیکھ کر ٹھٹھک گئی تھی۔ لمحے دو لمحے کو ہماری نگاہیں ٹکرائی تھیں، پھروہ گھوم کر ہرنی کی طرح قلیلیں بھرتی گھنے جنگل میں گھس کر گم ہوگئی تھی۔ میں بھونچکاکرکھڑے کا کھڑا رہ گیا تھا۔ لڑکیوں کی کلکاریاں کہیں سے بھیسنائی نہیں دے رہی تھیں۔ اتنے میں درانی پہنچ گیا تھا۔ میں نے اسے پری سے آمنا سامنا ہونے کے بارے میں بتایا تو اُس نے کہا تھا، ’’یار ڈاکٹر کوئی مقامی لڑکی ہوگی۔ باقی لڑکیوں سے دور ہو رفع حاجت کی غرض سے ادھر آئی ہوگی۔ تم نے اُسے ڈرا دیا ‘‘۔ مگر میں یہ ضرورسوچتا رہا کہ اسے اِس مقصد کی خاطر پیدل چلنے والوں کی پگڈنڈی کے پاس بھلا کیوں آنا تھا ؟
اگر چہ میرے ذہن میں وہ بات بھی تھی کہ شیخ نے اپنی معتقدین کو ہم پنجابی فوجیوں سے بچنے کی تنبیہہ کی ہے۔ وہ پری تھی یا لڑکی لیکن تھی لاجواب ۔ میں نے زندگی میں دیس دیس کی بے حد حسین اور انتہائی نوجوان لڑکیاں دیکھی ہیں لیکن اس قدر معصوم و متحیرحسن پھر کبھی دیکھنے کو نہیں ملا ۔ میں موت کے جھولے تک اسی کے بارے میں سوچتا رہاتھا لیکن خوف نے اُس کی یاد کے تحیر اور تجسس کو ماند کردیا تھا۔ اب ہم دریا کے اُس کنارے پر کوئی چالیس منٹ چلنے کے بعد شکمہ پوسٹ پہنچے تھے۔
ہیلی کاپڑ سے اتر کر تو میں نے اِس مقام کو چھچھلتی نگاہوں سے ہی دیکھا تھا۔ اب یوں لگا تھا جیسے دو مہیب پہاڑوں کے درمیان یہ ہرا بھرا نخلستان یا خوبصورت جزیرہ تھا جس میں پتھر کے بنے چند کمروں پر دن کے دو بجے شام کا اندھیرا چھارہاتھا۔ دھان پان نوجوان لیفٹینٹ خالد ہمیں دیکھ کر خوش ہوا تھا۔وہ بیچارہ وہاں پر واحد افسر تھا جس کا اور کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ رات ہم اس کے مہمان تھے ۔ گپ شپ لگا کر دس گیا رہ بجے ہی سوگئے تھے۔ رات کو ہی پروگرام بنالیا تھا کہ صبح آٹھ بجے پکٹ’’چور‘‘ کے لیے چڑھنا شروع کردیں گے۔
لیفٹینٹ خالد نے بھی ہمارے ساتھ جانے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ صبح ایک حوالدارکو اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ پہلے ہم دو ہزار فٹ تک اوپر چڑھتے رہے تھے اور سطح سمندر سے دس ہزارفٹ کی بلندی پر آکررُکے تھے۔ وہاں سے ہمیں مسلسل ساڑھے پانچ ہزار فٹ اوپر جانا تھا۔ خالد پہلے ہی کمزور تھا۔ ایک چڑھائی بہت دشوار تھی کیونکہ اس میں تقریباَ سیدھا ہی اوپر چڑھناتھا۔ ابھی منزل مقصو د کوئی ایک ہزار فٹ مزید بلندی پر تھی کہ خالد کو قے آگئی تھی۔ لگتا تھا اُس پر آکسیجن کی کمی کا اثر ہونے لگ گیاتھا۔ ہم نے بہتیرا سمجھایا کہ تم اپنے حوالدار کے ہمراہ واپس چلے جاؤ لیکن وہ راضی نہیں ہوا تھا۔